رات کی ٹھنڈی ہوا خاموش گلیوں میں سرسرا رہی تھی۔ لاہور کے ایک قدیم محلے میں، جہاں پرانی عمارتوں کی دیواروں نے کئی محبت کی کہانیاں دیکھی تھیں، وہاں ایک چھوٹے سے کیفے کی کھڑکی کے پاس آریان بیٹھا تھا، ہاتھ میں کافی کا کپ، نظریں کتاب پر مگر دماغ کہیں اور۔
“پھر سے سوچ رہے ہو اس کے بارے میں؟” کیفے کے مالک بابا جان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“میں اسے کیسے بھول سکتا ہوں بابا؟ اس کی ہنسی، اس کی باتیں، اس کی وہ بڑی بڑی آنکھیں…” آریان نے ایک آہ بھری۔
یہ کہانی شروع ہوئی تھی تین سال پہلے، جب آریان، جو ایک ابھرتا ہوا مصور تھا، اور مہک، جو ایک مصنفہ تھی، ایک کتابوں کی دکان میں ملے تھے۔ آریان اپنی پینٹنگز کے لیے رنگ خریدنے آیا تھا اور مہک کسی نایاب کتاب کی تلاش میں تھی۔ اتفاق سے، وہی کتاب آریان کے ہاتھ میں تھی۔
“یہ کتاب مجھے چاہیے!” مہک نے ضد کی۔
“لیکن میں پہلے لے چکا ہوں۔” آریان نے شوخی سے جواب دیا۔
یہ معمولی جھگڑا، ایک حسین دوستی میں بدلا، اور پھر وہ دوستی کب محبت میں بدل گئی، انہیں خود بھی پتا نہ چلا۔
مہک کی کہانیاں آریان کی پینٹنگز کا حصہ بن گئیں اور آریان کی تصویریں مہک کے لفظوں میں رنگ بھرنے لگیں۔ وہ ایک دوسرے کے بغیر کچھ ادھورے لگتے تھے۔ لیکن قسمت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔
ایک دن، اچانک مہک نے آریان سے دوری اختیار کر لی۔ وہ جو ہر وقت اس کے ساتھ ہوتی تھی، اب اس کی کالز اور میسجز کا جواب بھی نہیں دے رہی تھی۔
“مہک! آخر بات کیا ہے؟” آریان نے اس کا راستہ روکا۔
“ہمیں الگ ہونا ہوگا، آریان۔” اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
“یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں!”
“کبھی کبھی محبت کا مطلب ساتھ رہنا نہیں ہوتا، بلکہ کسی کی خوشی کے لیے قربانی دینا ہوتا ہے۔”
مہک نے کچھ نہیں بتایا، بس چلی گئی۔ آریان نے اسے ہر جگہ تلاش کیا، لیکن وہ کہیں نہیں ملی۔
کئی مہینے بعد، آریان کو معلوم ہوا کہ مہک ایک خطرناک بیماری میں مبتلا تھی، اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ آریان اس دکھ میں اس کے ساتھ رہے۔ لیکن یہ جاننے کے بعد آریان ایک پل بھی صبر نہ کر سکا۔ وہ مہک کے پاس پہنچا، اسے اپنے بازوؤں میں لیا، اور کہا:
“محبت ساتھ نبھانے کا نام ہے، مہک۔ میں تمہیں چھوڑنے کے لیے نہیں آیا تھا، اور نہ ہی چھوڑوں گا۔”
مہک کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر اس بار وہ آنسو درد کے نہیں، خوشی کے تھے۔ آریان نے اس کا ہاتھ تھاما، اور وہ دونوں اس کہانی کو ایک خوبصورت انجام دینے کے لیے ایک نئے سفر پر چل پڑے—جہاں محبت صرف لفظوں میں نہیں، بلکہ ہر سانس میں بسی تھی۔